آج جب کوئی مجھ سے پوچھتا تھا کہ میں دائرہ اسلام میں کیسے داخل ہوئی تھی تو میں اپنے ماضی کو دیکھتی اور تھوڑا سا حیران ہوتی ہوں۔ میں نے کبھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا سوائے ایک اہم نقطے کے۔ کب میں نے کیتھولک عسائیت کے بارے میں سوال کیا تھا؟ کب میں نے چاہا تھا کہ میں مسلمان ہوں؟ ان سوالوں اور ان جیسے کئی سوالوں کے جوابات کے لئے مجھے میرے تصور سے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ان سوالوں کے حقیقی جوابات کے لئے، میں آپ کو شروع سے حقیقت بتاتی ہوں تا کہ آپ میرا وہ نقطہ سمجھ سکیں جس کی بناء پر آخر کار میں نے اسلام کی سچائی قبول کی۔ جب میں نے اسلام قبول کیا اس وقت میری عمر 67 سال تھی اور اللہ تعالٰی کی مہربانی سے آج میں اسلام پر ایمان والی ہوئی۔
“سو جس شخص کو اللہ تعالٰی راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینے کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالٰی ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے۔”
(قرآن 6:125)
میں ایک راسخ العقیدہ رومن کیتھولک گھرانے میں پروان چڑھی، میں اپنی تین بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ میرے والد پورا دن سخت محنت کرتے تھے۔ وہ ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتے اور رات گئے واپس آتے تھے۔ ان تمام میں میری والدہ گھر پر رہتیں اور میری اور میری بہنوں کی دیکھ بھال کرتی۔ وہ ایک بہت غمزدہ اور بدقسمت دن تھا جب میری ماں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے والد ایک کار حادثہ میں نہ رہے۔ ان کی اچانک موت سے ہمارے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ تمام معاملات بدلنے لگے، پھر ایک دن میری ماں نے بتایا کہ اب ان کو کام پر جانا پڑے گا۔ میری والدہ جو کہ پہلے ایک نرس رہیں تھیں اب وہ ہماری پرورش کے لئے مجبور تھی کہ کام کریں۔ انہیں ایک مقامی ہسپتال میں نوکری مل گئی وہ کئی دفعہ دو شفٹوں میں کام کرتی تھیں مگر میری والدہ کی ان نئی ذمہ داریوں کی وجہ سے زیادہ عرصہ تک ہماری پرورش صحیح نہ ہونے کے پیش نظر انہوں نے ہمیں کیتھولک اسکول بھیج دیا۔ اب ان کا کام تھا کہ وہ ہم بہنوں پر نظر رکھیں۔
بہت عرصہ انہیں حالات میں گزر گیا، پھر میں نے خود کو پایا کہ میں بہت سا وقت اپنے دوستوں کے ساتھ مقامی کیفے وغیرہ میں گزارتی تھی وہاں میری ملاقات ایک بہت پیارے مسلمان مرد سے ہوئی جو کہ بعد میرے شوہر بنے۔ میری ماں نہیں جانتی تھی کہ میں اپنا وقت اس آدمی کے ساتھ گزارتی ہوں۔ حقیقت میں جب میں نے اُن کو یہ بتایا کہ میں اُس کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ ہم ان سے مختلف زندگی گزارتے ہیں اور اس کی بناء پر ہم پیشانیوں میں گِھر جائیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اگر ہمارا ہر بچہ ایسا کرے گا تو ہمارے مذہب میں بلاشبہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ بیس 20 سال کی عمر میں، میں نہیں سمجھ سکی تھی کہ ہماری شادی سے ہمیں کوئی دشواری کیسے ہوگی۔ میں بہت زیادہ محبت میں گرفتار تھی خوش تھی کہ کوئی ہے جو میرا خیال کرتا ہے۔ اس وقت میرے خاوند بہت زیادہ مذہبی نہیں تھے بلکہ اتنے بھی مذہبی نہیں تھے کہ میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں ان کو کیتھولک مذہب کی طرف لا سکتی تھی۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم ایک جیسے پس منظر سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ میں سمجھتی تھی کہ میں کھلے خیالات کی مالک ہوں اور نئی تہذیب کو اپنانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔
ہر چیز اگلے چند سالوں تک صحیح چلتی نظر آرہی تھی۔ ہم خوش تھے اور کبھی بھی ہمارے درمیان تہذیب یا مذہب پریشانی کا باعث نہیں بنی۔ اللہ نے ہمیں ایک پیارے سے بیٹے کی شکل میں نعمت دی اور پھر کچھ سالوں بعد ایک پیاری سی بیٹی۔ اب تک، ہم سب مل کر رہ رہے تھے اور یہاں تک کہ میں نے اپنے بچوں کو چرچ لے جانا شروع کردیا تھا۔ میرے شوہر نے مجھے اتوارکے ہفتوار اجتماع میں لے جانے سے نہیں روکا۔ بہرحال، ابھی مجھے کچھ ہی دن ہوئے تھے بچوں کو چرچ لے جاتے ہوئے کہ میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ میرے بچے چرچ جائیں۔ صاف الفاظوں میں، مجھے غصہ اور افسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اعتراض کیا “کیوں نہیں”۔ میں نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بھی مذہب بہتر ہے کوئی مذہب نہ ہونے سے”۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرے بچوں کے چرچ جانے پر اعتراض کیوں ہے۔ اُس وقت تک، ہمارے درمیان مذہب پر کبھی بحث نہیں ہوئی تھی۔ حقیقیت میں میں نے کبھی یہ گمان بھی نہیں کیا تھا کہ کیتھولک مذہب کے علاوہ بھی کوئی مذہب ہوسکتا ہے۔ میں پیدائشی کیتھولک عیسائی تھی اور سمجھتی تھی کہ کیتھولک عیسائیت ہی صحیح مذہب ہے۔ وضاحت کے لئے، میں کبھی اعتراض نہ کرتی لیکن اُس دن سے مجھے لگا کہ بہت سی پریشانیاں اب ظاہر ہوں رہیں ہیں۔ ہم ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہر چیز اور ہر ایک کے بارے میں بحث مباحثہ میں لگے رہتے۔ ایک چھوٹی سی بات بڑھ کر بڑا مسئلہ بن گئی۔ مذہب ہمارے درمیان موضوع بحث ہوتا تھا۔ تہذیبوں کا فرق ہمارے بحث مباحثہ میں ظاہر ہو رہا تھا۔ ہم اپنے سسرال والوں کے بارے میں اور کبھی بدقسمتی سے اپنے بڑھتے ہوئے بچوں پر بحث کرتے۔ جس بارے میں میری ماں نے مجھے خبردار کیا تھا وہ سب مجھے صحیح ثابت ہوتا نظر آرہا تھا۔
ہماری شادی شدہ زندگی میں ہمارے درمیان جو امن اور ہم آہنگی تھی تو وہ صرف میرے شوہر کے والد یعنی میرے سسر کی سمجھداری، خلوص، فکراور محبت کی بناء پر تھی، میرے والد میرے شوہر اور اپنے پوتے، پوتی سے پیار کرتے تھے اور یقیناً مجھ سے اپنی بیٹی کی طرح پیار کرتے تھے۔ وہ ایک بہت مذہبی اور دیندار مسلمان اور عقل مند انسان تھے۔ اُس وقت، میں کیوں کہ اسلام کے بارے میں ذرہ برابر بھی معلومات نہیں رکھتی تھی، میرے سسر نے پہلی مرتبہ مجھے مذہب اسلام سے روشناس کرایا۔ وہ پابندی سے نماز پڑہتے، رمضان کے مہینے میں روزے رکھتے اور غریبوں کے لئے بہت فیاض اور سخی تھے۔ میں اللہ سے ان کا تعلق محسوس کرسکتی تھی۔ حقیقت میں میرے سسر ضرورت مند لوگوں پر اتنے مہربان تھے کہ ہر روز جب وہ ظہر کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتے تو کسی نہ کسی ضرورت مند کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دے کر آتے اور یہ وہ روزآنہ کرتے تھے ان کے رشتہ دار اور عزیز اکارب کہتے ہیں کہ ان کا یہ طریقہ کار انہوں نے اپنی 95 سالہ زندگی میں مرتے دم تک جاری رکھا۔
میرے سسر میرے اور میرے شوہر کے درمیان بحث مباحثہ کو پسند نہیں کرتے تھے اور ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے مشورہ دیتے کہ اس سے پہلے کہ کہیں ہمارے جھگڑوں کا اثر ہمارے بچوں پر پڑے۔ وہ ہمارے درمیان حل نکالنے کے لیے شدت سے کوششیں کرتے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو خبرار کیا تھا کہ وہ مجھے میرے کمرے میں عبادت کرنے کی اجازت دیں مگر یہ مذہب کے حوالے سے کچھ عرصے سے زیادہ نہ ہو سکا۔ میں مایوس تھی اور علیحدگی کے بارے میں سوچنے لگی۔ جب میں نے اپنے شوہر سے علیحدگی کے بارے میں بات کی تو وہ مان گئے اور کہا کہ شاید یہ ہمارے شادی شدہ زندگی کے لئے بہتر ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بڑی مشہور کہاوت ہے کہ جب کوئی دور ہوتا ہے تو اس کے پیار کی شدت کا اندازہ تب ہوتا ہے لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک دوسرے کی دوری نے ہمارے دلوں کے درمیان فاصلے بھی بڑھا دیے۔ علیحدگی کے بعد، ہم دونوں نے چاہا کہ ہم مستقل طور پر علیحدہ ہو جائیں اور ہم دونوں طلاق پر راضی ہو گئے۔ حالانکہ میں شدت سے چاہتی تھی کہ میرے بچے میرے ساتھ رہیں لیکن ہم دونوں جانتے تھے کہ بچوں کی پرورش والد کے پاس زیادہ بہتر ہو سکتی ہے کیوں کہ مالی اعتبار سے وہ اچھی حیثیت کے مالک تھے اور بچوں کی نشونما اور کئی ضروریات کو پورا کرسکتے تھے جو کہ میں نہیں کرسکتی تھی۔ ہر رات میں اپنے بچوں کی راہ تکتی تھی۔ پھر میں اپنی ماں کے پاس واپس آگئی اور بعد میں ہر ہفتیوار چھٹی سے ایک دن پہلے میں اپنے بچوں سے ملنے لگی تھی۔ میرے سابقہ شوہر میرے بچوں کو جمعہ کی دوپہر چھوڑ جاتے اور اتوار کی صبح سویرے لے جاتے تھے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار مجھے پسند نہیں تھا لیکن کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔
میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے انجیل (انجیل) کا ایک حصہ پڑھتی تھی۔ جب بھی میرے بچے میرے پاس آتے میں ان کو انجیل کا ایک حصہ پڑھ کر سناتی بے شک ان کی سمجھ میں آتی ہو یا نہیں۔ انجیل کا حصہ پڑھنے کے بعد، پہلی رات کو یسوع مسیح سے ، دوسری رات کو فرشتوں سے، اگلی رات مختلف بزرگوں سے اور اس سے اگلی رات کنواری مریم سے مدد مانگتی تھی۔ لیکن ایک رات کوئی بھی نہ تھا کہ جس سے مدد مانگی جاتی، مجھے بزرگوں کے پاس جانا تھا۔ تو میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ “آج ہم خدا سے کچھ پوچھنے جا رہے ہیں”۔ میرے بیٹے نے کہا “ٹھیک ہے، تو خدا کون ہے؟”۔ میں نے جواب دیا “وہ ایک ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے”۔ تو وہ سوچنے لگا اور میری باتوں پر غور کرنے لگا۔ میری تفصیل، میرے غلطیوں کودوبارہ مٹاتی ہے۔ میں نے کہا “اب خدا کا شکر ہے”۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا “مما، یہ کون ہے”۔ میں نے کہا “یہ خدا ہے۔ وہ خدا کے بیٹے ہیں”۔ اس نے کہا “آپ نے ابھی ایک منٹ پہلے کہا کہ خدا ہمیشہ سے ہے تو یہ کیسے مرسکتے ہیں؟ میں نے کبھی بھی اپنی پوری زندگی مین ایسا نہیں سوچا۔ اس نے مجھ سے پوچھا “یہ خدا کہاں سے آئے ہیں؟” اور میں نے جواب دیا “یہ مریم کو کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں کنواری مریم کی کوکھ سے”۔ اس نے کہا “اچھا تو یہ کچھ وقت پہلے پیدا ہوئے تھے”۔ میں نے کہا “جی ہاں”۔ لیکن اس کے بعد اس نے کہا “آپ نے تو کہا تھا کہ وہ ہمیشہ سے تھے وہ نہ تو کبھی مر سکتے ہیں اور نہ ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔ میرا بیٹا جو کہ اس وقت تقریباً آٹھ سال کا تھا مجھ سے براہ راست کہنے لگا، “مما، آپ کیوں صرف خدا سے ہی مدد نہیں مانگتیں؟” میں حیران تھی اور ششدر رہ گئی اور اچانک مجھے صدمہ ہوا کہ وہ میرے مذہب کے بارے میں سوال کرے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں خدا سے بھی مانگتی ہوں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرا اس بیٹے نے جو ایک چھوٹا سا کانٹا چبھویا تھا وہ وقت سے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا جو مجھے ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ ایک خدا کی، سچے خدا کی عبادت ضروری ہے۔
آخر کار کچھ سالوں بعد میں نے دوسری شادی کر لی اور اپنے نئے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں رہنے لگی۔ میرے سابقہ شوہر اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے۔ مجھے اپنے بچے دیکھے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا تھا۔ پھر میں اٹلی میں تھی جہاں میں نے اپنا نئے خاندان کی شروع کی اور میں تین مزید بیٹیوں کی ماں ہوگئی، تب بھی میں ہر رات باپ کے نام پر، بیٹے اور روح القدس کے نام پر عبادت کرتی تھی۔ سال لمحوں اور مصروفیت میں ایسے گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ ایک دفعہ میں گرمیوں کے دنوں میں بہت خوش تھی کہ میرا بیٹا اور میری بیٹی میرے پاس آنے والے تھے۔ بہت سی باتیں میرے دماغ میں چل رہیں تھیں۔ آیا وہ مجھے اتنے لمبے عرصے بعد دیکھ کر کتنا خوش ہوں گے؟ ہم کس بارے میں باتیں کریں گے؟ میں مدد کے لیے دعائیں کرنے لگی۔ پہلی مرتبہ میرے تفکرات ہوا ہوگئے جب میں نے انہیں ائیرپورٹ پر دیکھا۔ ماں اور بچوں کے درمیاں قدرتی لگاؤ ہوتا ہے اور وہ تھا۔ اگر لگاؤ کچھ وقت کے لئے ہوتا تو ختم ہو چکا ہوتا۔ میرا بیٹا میرے دونوں بچوں میں سے زیادہ بولتا تھا۔ اس نے یقینی بنایا اور مجھے یاد دلایا کہ وہ خنزیر کھانا میں نہیں کھائے گا اور نہ ہی ایسی کوئی چیز کھائے گا جس میں الکوحل شامل ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بھی خنزیر نہیں کھاتی اور نہ ہی الکوحل پیتی ہوں۔ میری یہ عادت تب تک تھی جب تک میں نے اس کے والد سے شادی نہیں کی تھی۔ جہاں تک شراب کا تعلق ہے، میں نے یقینی بنایا کہ کھانے میں شراب کا استعمال نہ پو جب تک کہ وہ میرے گھر پر ہیں۔
وہ ایک خوبصورت گرمیوں کا موسم تھا ایک دوسرے کو جاننے کے لئے ان کو بتایا ان کی نئی بہنوں کے بارے میں، پکنک منائی، دور دراز علاقوں کی سیر کی، تیراکی کی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وقت گزرے لیکن میں جانتی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دوبارہ واپس سعودی عرب جانا ہے اور وہ واپس جانے پر اصرار کررہے تھے۔ میں نے اپنی بیٹی سے تکلیف دہ سوال پوچھا کہ اس کی سوتیلی ماں کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے تومیں جواب سن واقعی بہت خوشش ہوئی کہ جب اس نے کہا کہ وہ مجھے اپنی بیٹی کی طرح رکھتی ہیں۔
ان گرمیوں کے بعد میرے بچے ایک ساتھ دو دفعہ اور میرے پاس آئے ۔ جب میرا بیٹا 21 سال کا ہوگیا، وہ میرے پاس 6 مہینے کے لیے رہنے آیا۔ ہم مذہب پر بحث کرتے کیا ہمیں مذہب پر بحث کرنی چاہیئے تھی! شخصیت کے لحاظ سے میں اور میرا بیٹا ایک جیسے تھے لیکن ہمارے اپنے اختلافات تھے۔ اور ظاہر ہے ان میں سے ایک مذہب بھی تھا۔ جب کہ میں کسی بھی مسئلہ میں بہت زیادہ گرم مزاج اور میرا بیٹا بہت زیادہ ٹھنڈا تھا، لہٰذا اس کی کوشش ہوتی تھی کہ معاملات پرسکون رہیں جب کہ میں غصہ میں حد سے گزرجاتی۔ ان جھگڑوں کے باوجود، میرا یقین تھا کہ یہ ہمارے حق میں ہورہا ہے اور ہم اپنی بحث میں برابری کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ ہم بہت حد تک ایک جیسے تھے ہم پیار کرنے والے، سخی اور لوگوں کی مدد کرنے والے تھے۔ مجھے میرے بیٹے میں جو سب سے اچھی چیز لگتی تھی وہ اس کی کام میں لگن تھی جو بھی وہ کام کرتا تھا لگن سے کرتا تھا۔ وہ بہت پیارا، شریف، بہت اچھے اخلاق کا مالک اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا تھی جو بھی کچھ وہ سوچتا میں اس کا احترام کرتی تھی۔ میں اس کے بہت سے ناگفتہ بہ حالات سے اپنا سر بلند رکھنے کی صلاحیت کو بہت سراہتی تھی۔ وہ بہت منطقی تھا اور زیادہ دیر تک پریشانیوں میں ڈوبانہیں رہتا تھا۔ وہ کسی بھی معاملہ میں کوشش کرتا تھا کہ جہاں تک ممکنہ ہو اس کا حل نکالا جائے یا حالات کو جلد از جلد معمول پر کیا جائے۔ میں مستقل اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرتی کہ کسی طرح وہ کیتھولک عیسائیت کی طرف راغب ہوجائے۔ میری ایک بری خواہش تھی کہ وہ ایک پادری بننے، میں سمجھتی تھی کہ وہ لوگوں کو اچھی طرح قائل کرسکتا ہے۔ وہ ایک بہت اچھا لڑکا اور خدا ترس انسان تھا۔ اس میں پادری ہونے کی اچھی خصوصیات تھیں۔ میں نے جب ایک مرتبہ اس سے کہا کہ تم ایک بہت اچھے پادری ثابت ہوسکتے ہو تو وہ مسکرایا اور اس نے جواب دیا کہ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ میری ماں ایک مسلمان ہوں نہ کہ وہ ایک کیتھولک پادری۔
6 مہینے بعد، میرے بیٹے نے امریکہ جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور چلا گیا۔ آخر کار وہ امریکہ میں بس گیا اور میامی، فلوریڈا میں اس نے اپنا ایک مکان بنوایا۔ اسی دوران میں بیوہ ہوگئی اور میرے پورے گھر میں اب میرے پاس صرف میری ایک جوان بیٹی رہ گئی تھی۔ میرا بیٹا چاہتا تھا کہ میں اس کے امریکہ میں رہوں، لٰہذا میں اپنی17 سالہ بیٹی کے ساتھ امریکہ کے لئے روانہ ہوئی۔ ہمیں امریکہ آکر بہت خوشی ہوئی اور میری بیٹی جلد ہی اپنی نئی زندگی میں گھل مل گئی۔ کچھ بھی مختلف نہیں ہوا میرے اور میرے بیٹے کے درمیان، ہم پھر مستقل اسلام اور کیتھولک عیسائیت پر بحث کرتے رہے اور ہم دونوں میں سے کوئی بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ جب بھی تین کا موضوع چھڑتا تو مجھے کوئی جواب نہ ملتا جس سے کہ میں اس کی تردید کرسکوں، میں بس اپنے ہاتھ اٹھالیتی اور چلی جاتی۔ میں بہت غصہ ہوجاتی تھی جب میں دیکھتی کہ میرے مذہب پر حملہ ہو رہا ہے۔
میں نے کہا اپنے بیٹے سے کہا کہ “کیوں تم بھی دوسروں کی طرح نہیں ہوسکتے؟” “دوسرے مسلمان مجھے سمجھتے ہیں اور وہ کوشش نہیں کرتے کو وہ میرا مذہب تبدیل کرا سکیں۔” “میں دوسروں کی طرح نہیں ہوں۔” اس نے جواب دیا “میں آپ سے پیار کرتا ہوں، میں آپ کا بیٹا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ جنت میں جائیں۔” میں نے اسے بتایا کہ “میں جنت میں جاؤ گی ـ کیونکہ میں اچھی ہو، ایماندار عورت ہوں، جھوٹ نہیں بولتی، چوری نہیں کرتی یا دھوکہ نہیں دیتی۔” میرے بیٹے نے جواب دیا کہ “یہ چیزیں اس دنیاوی زندگی کے لیے ضروری بھی ہیں اور مددگار بھی، جبکہ قرآن میں کئی جگہوں پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی شرک (اللہ کے ساتھ کسی کو شامل کرنا) کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ قرآن میں فرمان ہے کہ صرف وہ گناہ جو اللہ معاف نہیں کرے گا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ وہ (خدا) ہر گناہ معاف کردے گا جو وہ چاہے۔” اس نے مجھ سے گزارش کی کہ میں پڑہوں، سیکھوں اور اسلام کو دریافت کروں۔ کتابیں لائی گئیں تھی جو کہ میرے ذہن کو کھول سکتی تھیں۔ میں نے انکار کردیا۔ میں ایک پیدائشی کیتھولک تو میں مروں گی بھی کیتھولک۔
اگلے دس سال میں اپنے بیٹے، اس کی بیوی اور اس کے اہل خانہ کے قریب رہی۔ میری خواہش تھی کہ میں کچھ وقت اپنی بیٹی کے ساتھ گزاروں، جو کہ ابھی تک سعودی عرب میں رہتی تھی سعودی عرب کا ویزہ لینا اتنا آسان نہ تھا۔ میرے بیٹے نے مجھ سے مذاق میں کہا کہ اگر میں اسلام قبول کرلوں تو مجھے سعودی عرب میں جانے کا ویزہ مل جائے گا اور پھر میں عمرہ (مکہ سعودی عرب کی زیارت کا ویزہ) کا ویزہ حاصل کرنے کے قابل بھی ہو گی۔ میں نے سختی سے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ سخت محنت اور کچھ تعلقات استعمال کرتے ہوئےمجھے اپنی بیٹی کے پاس جانے کا ویزہ مل گیا جو کہ تین بچوں کی ماں تھی۔ جانے سے پہلے میرے بیٹے نے مجھے بہت زور سے سینے سے لگایا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور کتنی اس کی خواہش ہے میں جنت میں جاؤں پھر اس نے کہا کہ کیسےاس نے وہ حاصل کیا جو اس نے چاہا سوائے اس کے کہ اس کی والدہ بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس نے بتایا کہ وہ ہر روز ہر نماز میں اپنے خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ (اللہ سبحان و تعالیٰ) مجھے اسلام قبول کرنے کی طرف راغب کردے۔ میں نے اس بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
میں اپنی بیٹی سے ملنے سعودی عرب پہنچی وہاں اس ملک کے موسم اور لوگوں کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ 6 مہینے بعد بھی میں سعودی عرب کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی تو میں نے ویزہ آگے بڑھانے کی درخواست کی۔ میں وہاں ہر روز 5 وقت کی آذان (نماز کے لئے بلانا) سنتی اور دیکھتی تھی کہ ہر ایک یقین رکھنے والا اپنی دکان بند کرتا ہے اور نماز کے لیے چل پڑتا ہے۔ جب کہ یہ منظر مجھے بہت جذباتی کرتا تھا، میں بلاناغہ روزآنہ صبح و شام انجیل پڑہتی اور کہتی تھی کہ کتنا سکون ہے۔ نہ تو میری بیٹی نے اور نہ ہی کسی اور مسلمان نے مجھ سے کبھی اسلام کے بارے میں بات کی اور نہ ہی انہوں نے میرا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ وہ میرا احترام کرتے تھے اور وہ میرے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دے رہےتھے۔
میرا بیٹا مجھ سے ملنے سعودی عرب آیا۔ میں بہت خوش ہوئی کیونکہ میں بھی اسے بہت یاد کر رہی تھی۔ اپنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد پھر وہ مذہب اور وحدانیت کی باتیں کرنے لگا۔ میں غصہ ہو گئی اور میں نے اسے بتایا کہ “میں سعودی عرب میں میں ایک سال سے رہ رہی ہوں مگر کسی ایک نے بھی مجھے میرے مذہب کے بارے میں نہیں کہا۔ اور تم نے اپنے آنے کے بعد دوسری ہی رات کو پھر اتنی جلدی پیغام پھیلانا شروع کردیا”۔ اس نے معافی مانگی اور پھر مجھ سے کہا کہ “میں کیا کروں کہ آپ اسلام قبول کرلیں”۔ میں نے اس کو دوبارہ کہا کہ “میں عیسائیت کبھی بھی نہیں چھوڑوں گی”۔ اس نے مجھ سے تین کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ کوئی کیسے کسی چیز پر یقین کرلے جب کہ کوئی منطق نہ ہو۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ وہ اس بارے میں پہلے بھی سوالات کرچکا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کی کوئی منطق ہو، آپ کا بس ایمان ہونا چاہیئے۔ مجھے ایسا لگا کہ اس نے میرا جواب قبول کرلیا ہے جس پر میں بہت خوش تھی کہ آخر کار میں نے مذہب پر بحث جیت لی ہے۔ میرے بیٹے نے کہا کہ یسوع مسیح کے معجزوں کی وضاحت کریں۔ آہا، میں سمجھی کہ میں اب اسے کہیں بھی موڑ سکتی ہوں۔ میں نے وضاحت کے ساتھ یسوع کی پیدائش کا معجزہ، کنواری مریم ، یسوع ہمارے گناہوں کی وجہ سے مرے، خدا نے اپنی روح ان میں پھونکی، یسوع خدا جیسے ہیں، یسوع خدا کے بیٹے جیسے معجزوں کے بارے میں بتایا۔ وہ تمام وقت خاموشی سے میری باتیں سنتا رہا، اس نے کوئی تردید نہ کی، میرا بیٹا خاموش کیوں ہے؟ پھر اس نے آہستہ سے کہا “مما، اگر یسوع کا ہمارے گناہوں کی وجہ سے جمعہ کو انتقال ہوا اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ وہ تین دن کے بعد اتوار کو اٹھائے گئے تو ان تین دنوں میں اس دنیا پر کس کی حکمرانی تھی مما مجھے آپ اس کی وضاحت کریں؟” میں نے اس سوال کی منطق کے بارے میں سوچا اور اسی لمحے میں جان گئی کہ یہ کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔
میں نے کہا “یسوع خدا کے بیٹے تھے، یسوع اور خدا ایک ہیں اور ایک جیسے ہیں۔” میرے بیٹے نے جواب دیا کہ “گائے کے بچے کو بچھڑا (چھوٹی گائے)، بلی کے بچے کو بلونگڑا (چھوٹی بلی) ، انسانوں کے بچے ہوتے ہیں، چھوٹے انسان، جب خدا کا ایک بیٹا ہے تو وہ کیا ہے۔ ایک چھوٹا خدا؟ اگر ایسا ہے توکیا آپ کے دو خدا ہیں؟” پھر اس نے کہا کہ “مما، کیا آپ کبھی خدا بن سکتی ہیں؟” “کیا بیحودہ سوال ہے” میں نے اس سے کہا “انسان کبھی بھی خدا نہیں ہو سکتا”۔ (اب مجھے واقعی بہت غصہ آرہا تھا) اس نے مجھ سے پوچھا “کیا یسوع ایک انسان تھے؟” میں نے جواب دیا “ہاں” اس نے پھر کہا “لٰہذا، وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتے۔ یہ ایک بیحودہ بات ہے کہ یہ دعوہ کریں کہ خدا انسان ہوسکتا ہے۔ خدا کے لیے موزوں نہیں ہے کو وہ انسانوں والی خصوصیات رکھتا ہو کیوں کہ اس کا مطلب ہو گا کہ خالق خود اپنی مخلوق بن گیا۔ بہرحال، مخلوق ایک شے ہے جو خالق نے تخلیقی عمل سے گزار کر تیار کی ہے۔ اگر خالق خود اپنی مخلوق بن جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ خالق نے خود کو تخلیق کیا ہے، جو کہ صاف طور پر بے معنی بات ہے۔ کسی کو پیدا کرنے کے لئے، اس (خدا) کے پاس پہلے سے اس کا نہ ہونا ضروری ہے،اور اگر وہ (خدا) نہیں ہے تو پھر کیسے وہ (خدا) تخلیق ہوا۔ مزید یہ کہ اگر وہ (خدا) تخلیق ہوئے تھے اس کا مطلب ہے کہ وہ اس (خدا) کی پیدائش تھی؟ جو کہ تردید کرتی ہے اس بات کی کہ وہ (خدا ) ہمیشہ سے ہے۔ واضح رہے کہ تخلیق کے لیے خالق کا ہونا ضروری ہے۔ تخلیق کو وجود میں لانے کے لئےخالق کا ہونا ضروری ہے جو کہ ان کو وجود میں لاتا ہے۔ خدا کو خالق کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو خود خالق ہے۔ لٰہذا، ان باتوں میں واضح تضاد ہے۔ یہ دعوہ کہ خدا خود اپنی مخلوق ہو اس کا مطلب ہے کہ اس (خد)ا کو خالق کی ضرورت ہے جو کہ مضحکہ خیز سوچ ہے۔ یہ خدا کے بنیاد تصور یعنی خدا کسی نے تخلیق نہیں کیا، اس کو خالق کی حاجت نہیں اورخود خالق ہونے کی تردید کرتی ہے”۔ میں جانتئ تھی کہ ان باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں میں سوچ کر بتاؤں گی۔
اس شام کو میں نے اپنے بیٹے کی باتوں کے بارے میں بہت غور سے اور بہت دیر تک سوچا، یہ تصور کہ یسوع خدا کے بیٹے ہیں سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میں خود اسے حقیقت کو مان نہیں سکتی کہ یسوع اور خدا ایک ہیں ایک جیسے ہیں۔ اس رات کو سونے سے پہلے میرے بیٹے نے کہا کہ سونے سے پہلے میں ایک خدا سے دعا کروں اور اسے سے رہنمائی اور سیدھا راستہ دیکھانے کی گزارش کروں۔ مین نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا کہ میں خلوص نیت کے ساتھ جواب کے لیے التجا کروں گی۔ میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور کتاب پڑھنے لگی جو میرے بیٹے نے مجھے دی تھی۔ پھر میں نے قرآن پاک کھولا اور پڑھنا شروع کردیا۔ ایسا لگا کہ جیسے میرے دل پرسے کچھ ہٹ رہا ہے۔ مجھے کچھ بدلتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اسلام کی سچائی دیکھی۔ کیا تھا جس کے خلاف میں برسوں سے لڑ رہی تھی۔
اس رات میں نے صرف ایک خدا سے دعا کی، نہ تو یسوع سے نہ مریم سے، نہ فرشتے سے، نہ بزرگ سے اور نہ ہی روح القدس سے۔ بس میں روئی اور خدا سے رہنمائی مانگی۔ میں نے دعا کی کہ اگر اسلام صحیح ہے تو مہربانی فرما کر میرے دل و دماغ پر اس کو مرغوب کردے۔ میں سونے چلی گئی اور اگلی صبح میں اٹھی اور میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میں اسلام قبول کرنے لئے تیار ہوں۔ وہ حیران ہوگیا۔ ہم دونوں نے رونا شروع کردیا۔ میری بیٹی اور میری پوتیوں کو بلایا گیا انہوں نے دیکھا کہ جب میں شہادت نامہ (مسلمانوں میں اللہ کے ایک ہونے اور محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا پیغمبر ہونے پر ایمان کا اعلان ہے) جو کہ عربی، اطالوی اور انگریزی زبانوں میں جمع کروایا۔
أشهد أن لا إله إلاَّ الله و أشهد أن محمد رسول الله
کوئی معبود نہیں سوائےاللہ کے اور محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
اطالوی اور انگریزی زبانوں میں جمع کروایا۔
کلمہ شہادت مسلمانوں کا اعلان ہے کہ وہ خدا کے ایک ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور پیغمبر ہیں۔ میں نے خود میں ایک مختلف عورت محسوس کی۔ میں خوش تھی جیسے کسی نے میرے دل پر سے اندھیرے کے پردے ہٹادیئے ہوں۔ ہر ایک جو مجھے پہچانتا تھا وہ یقین نہیں کرسکتا تھا کہ میں مذہب تبدیل کر چکی تھی۔ بعض اوقات ہم اس پر یقین نہیں رکھتے! لیکن اسلام بہترین، پرامن اور پرسکون مذہب ہے۔
میرے بیٹے کے امریکہ واپس لوٹ جانے کے بعد، میں نے سیکھا کہ کس طرح سورہ فاتحہ کی عربی میں تلاوت کرتے ہیں اور سیکھنا شروع کیا کہ کیسے نماز ادا کی جاتی ہے۔ میری زندگی جاری ہے جیسے پہلے تھی سوائے اس کے کہ اب میں مسلمان ہوں۔ مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے کہ میں اپنے خاندان میں اپنی بیٹی کے ساتھ تقریبات میں، معاشرتی تقاریب میں بھی حصہ لوں۔ میں اپنے خاندان اور دوستوں کی شادی ، حنا اور عقیقہ (نومولود بچے کا نہلانا) کی تقریبات اورکسی کی تدفین میں شامل ہونا چاہتی تھی۔ اسلام قبول کرنے کے 6 مہینے بعد میرا ایک تدفین میں جانا ہوا، وہاں میں واقعی جذباتی ہو گئی اور مجھے پھر پتا چلا کہ اسلام کتنا خوب صورت مذہب ہے۔ ایک جوان لڑکا بیماری کی وجہ سے مر گیا تھا۔ جیسے کہ میری بیٹی تعزیت پرجانے کے لیے تیار ہو رہی تھی کہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ اس خاندان کے لوگوں کو اچھی طرح جانتی ہو۔ اس نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتی۔ میں نے کہا “تو پھر کیوں جا رہی ہو؟” “کیوں کہ وہ خاندان پریشانی میں ہے، اور یہ ہماری اسلام میں ذمہ داری ہے کہ ہم وہاں جائیں اور ان سے پوچھیں کہ اگر ہم ان کی کوئی مدد کرسکیں”۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے کپڑے تبدیل کروں اور اس کے ساتھ جاؤں۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ گئی اور لڑکے کے گھر والوں کے ساتھ ہم نے تعزیت کی اور میں حیرت زدہ رہ گئی اتنے بہت سے لوگوں کی شرکت کو دیکھ کر۔ میں حیران تھی کہ اتنے بہت سے لوگ یہاں آئے اہل خانہ کی مدد کرنے کے لیے۔ میں نے متاثرہ خاندان کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ کتنا خوبصورت مذہب کہ کتنے لوگ اپنی زمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کی مدد کرنے کے لئے یہاں آئے۔ اور یہ تو ایک واقعہ تھا، اور بھی کئی موقعوں پر مسلمان اپنی ہمدردی دیکھاتے ہیں جو کہ اسلام کی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے۔
اب مجھے مسلمان ہوئے 8 سال ہو گئے ہیں الحمد اللہ۔ جب سے اب تک میں دو مرتبہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ عمرے کرچکی ہوں۔ میں نےاور میری بیٹی اور بیٹے نے کعبہ (سعودی عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے) اور مدینے میں حضرت محمد مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وسلم کی مسجد دیکھی۔ میں اب اپنی 75ویں سالگرہ منارہی ہوں الحمد اللہ۔ بعض اوقات میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو میں نے اپنے بیٹے کو مشکلات اور صدمہ سے دوچار کیا لیکن میرا بیٹا میری خدمت اورمیرے اسلام لانے پر حد سے زیادہ خوش تھا۔ اس نے پھرکہا کہ حضرت محمد مصطفٰی صلٰی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ “جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے”۔ اس حدیث کا مطلب ہے کہ آپ اپنی ماں کی خدمت کریں اور اس کا خیال کریں۔ یقینی طور پر ہے کہ میرے پیروں کے نیچے ہم دونوں کے لیے جنت تھی۔ میں حیران ہوں کہ اگر میری بیٹی مجھ پر اگر تھوڑا سا بھی دباؤ ڈالتی تو شاید میں جلد مسلمان ہو جاتی لیکن میرا بیٹا ہمیشہ یاد دلاتا رہا کہ اللہ سبحان اللہ و تعالیٰ زبردست منصوبہ بندی کرنے والا ہے اور وہی ہے جو کسی بھی شخص کو ہدایت کرسکتا ہے۔
“آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے”۔
(قرآن 28:56)
اچھی چیز یہ ہے کہ اس نے مجھے اسلام کے راستہ کی ہدایت دے کر مجھے عزت بخشی اور مجھے ایک مسلمان بنایا اور انشاءاللہ میں اور میرا بیٹا ہم ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔ « آمین »